طاہرہ نے دیکھا کہ اس کی سات سالہ بچی سکول کا کام کرتے ہوئے خیالوں میں گم ہو جاتی ہے یا پھر ادھر ادھر دیکھنے لگتی ہے تو وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی اور بولی کیا بات ہے؟ تم سکول کا کام توجہ سے کیوں نہیں کر رہی ہو؟ کیا چاہیے؟ ننھی سعدیہ نے ماں کو چونک کر دیکھا لیکن کوئی جواب نہیں دے پائی اور کام میںمصروف ہوگئی۔ طاہرہ نے پھر دیکھا کہ سعدیہ کی توجہ سکول کے کام سے ہٹ گئی ہے اور وہ بے چینی سے ادھر ادھر پہلو بدل رہی ہے۔ اس نے واضح طورپر محسوس کیا کہ سعدیہ پڑھائی کی طرف توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ہے۔ تو وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ اسے گود میں لیا اور بڑے پیار سے ہمدردانہ انداز میں پوچھا ”میری بیٹی کو کیا چاہیے، کیا پریشانی ہے“؟ لیکن ننھی سعدیہ پھر بھی کچھ نہ بتا سکی۔ طاہرہ نے سوچا کہ یقینا سعدیہ کسی مشکل میں ہے۔ توجہ مرکوز رکھنے میں مشکلات، بے چینی اور اضطراب ہونا بچوں کا ایک عارضہ ہے۔ اس میں بچہ اپنی عمر کے دوسرے بچوں کے مقابلہ میں بہت بے چین رہتا ہے۔ وہ کسی بات یا کام پر توجہ مرکوز نہیں کر سکتا۔ بچے کو توجہ اور دھیان میں مشکلات درپیش آئیں تو اس کی یہ علامات ہو سکتی ہیں۔
٭ یہ بچہ تفصیلات اور جزئیات پر توجہ نہیں دے سکے گااور تمام سرگرمیوں کے دوران غلطیاں کرے گا۔٭ کسی بھی نوعیت کے کام او ر کھیل کود میں اس کی توجہ برقرارنہیں رہے گی۔ ٭اس سے براہ راست گفتگو کی جائے گی تب بھی یوں محسوس ہو گا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں۔٭ ہدایات پر پوری طرح توجہ نہیں کرے گا۔ سکول ورک کرنے میں ناکام رہے گا۔ بلوغت کی عمر میں بھی پوری طرح کام سرانجام نہیں دے پائے گا اور اس کی وجہ یہ نہیں ہو گی کہ وہ کام کرنے کا مخالف ہے یا وہ ہدایات سمجھ نہیں پایا ہے۔
٭ کاموں اور سرگرمیوں کو منظم اور مرتب کرنے میںمشکل ہوگی۔٭ ایسے کاموں سے گریز کرے گا، ناپسند کرے گا اور ہچکچائے گا جن میں دماغی یکسوئی درکار ہوتی ہے۔ مثلاً سکول کا کام وغیرہ۔ ٭ مذکورہ بالا کاموں کیلئے درکار اشیاءمثلاً سکول کا سامان، کھلونے، پنسل، کتابیں یا آلات جیومیٹری اکثر گم کر دیتا ہے۔٭ کوئی غیر متعلقہ خارجی چیز بھی کسی کام سے اس کی توجہ ہٹا دیتی ہے۔٭ روزمرہ انجام دینے والے کاموں کو اکثر بھول جاتا ہے۔اگر بچہ مسلسل بے چین یعنی ہر وقت کوئی نہ کوئی حرکت کرتا رہتا ہے تو اس میں یہ علامات ہو سکتی ہیں۔٭ اکثر اوقات اس کے ہاتھ یا پاﺅں اضطراری طور پرحرکت کرتے رہتے ہیں اور چین سے بیٹھنے میں مشکل ہوتی ہے۔٭ جہاں اپنی نشست پر بیٹھے رہنا ضروری ہوتا ہے وہاں اپنی نشست چھوڑ دیتا ہے۔ مثلاً کلاس روم وغیرہ۔٭ جن حالات میں دوڑنا، بھاگنا ، سیڑھیاں چڑھنا مناسب نہیں ہوتا ان میں یہی حرکت کرتا ہے لیکن اگر بلوغت کی عمر ہے تومریض ایسا نہیںکرے گاالبتہ بے چینی محسوس کرتا رہے گا۔٭ جو کام اور کھیل خاموشی سے ممکن ہیں‘ ان کے دوران بھی خاموش نہیں رہ سکتا۔٭ ہر وقت بھاگ دوڑ میں مصروف رہتا ہے یوں لگتا ہے جیسے کسی گاڑی میں سوار ہو۔ ٭ بے حد باتونی ہوتا ہے۔
اگر بچہ بے چین ہو تو اس میںیہ علامات ہو سکتی ہیں۔
٭ سوال ختم ہونے سے قبل اس کا جواب دیتا ہے۔٭ جلد غصے میں آجاتا ہے۔٭ گفتگو یا کھیل کے دوران دوسروں کی باتوں یا کاموں میں مداخلت کرتا ہے۔یہ معمولی علامات ہیں۔ ان میں سے چند علامات ہر بچے میں ہو سکتی ہیں۔ جو پریشانی کی بات نہیں ہے۔ اگر یہ علامات چھ ماہ تک برقراررہیں اور چند علامات سات برس یا اس سے کم کے بچے میں ہوں اور گھر اور سکول دونوں جگہوں پر یہ علامات برقراررہیں اور ان علامات کے نتیجہ میں تعلیمی و سماجی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہو تو ان کا نوٹس لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ عدم توجہگی یا دماغی طور پر غیرحاضر رہنے کامرض بچوں کے علاوہ بالغوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ دونوں کیلئے کام پرتوجہ مرکوز رکھنا مشکل ہو تو ان کی طبیعت کام کی طرف سے اچاٹ ہو جاتی ہے۔ ایسے افراد کیلئے روز مرہ کے کام انجام دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس مسئلے سے نبٹنے کیلئے اچھی تدابیر ضرور موجود ہیں۔ بعض اوقات سائیکو تھراپی مفید ثابت ہوتی ہے۔ اس تکلیف میں مبتلا بچوں کیلئے یہ مشکل ہوتا ہے کہ وہ سماجی قواعد و ضوابط کی پابندی کر سکیں یا کسی سماجی صورت حال کو سمجھ سکیں۔ چنانچہ انہیں بہت کچھ سکھانا چاہیے۔ مثلاً جب کوئی ان سے بات کرے تو اسے کس طرح دیکھنا چاہیے۔ اس کی بات کو سننا چاہیے اور جب تک وہ بات مکمل نہ کر لے، جو اب نہیں دینا چاہیے۔ جب اس کے رویے اور برتاﺅ کی کوئی اچھی بات دیکھیں تو اسے انعام دیں۔
جس گھر میں کوئی ایسا بچہ ہو وہاں والدین کے درمیان تنازعات بھی رونما ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر جب کہ عارضہ کی تشخیص نہ ہوئی ہو تو والدین صورت حال کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے لگتے ہیں۔ وہ بچے سے خفگی کا اظہار کرتے ہیں اور اسے سزا دینے لگتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں بچے کا عارضہ زیادہ شدید ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ الگ تھلک رہنے لگتا ہے۔ گھر میں ہر خرابی کی ذمہ داری ایسے بچے پر عائد ہونے لگتی ہے۔ بعض اوقات یہ سمجھا جاتا ہے کہ بچہ توجہ حاصل کرنے کیلئے اس طرح کا برتاﺅ کرتا ہے۔ ایسے بچے کے والدین کو بچے کے مفاد میں بہر صورت متحد ہوجانا چاہیے اور مل جل کر صورت حال کا حل نکالنا چاہیے۔یہ عارضہ لڑکیوں کے مقابلہ میں لڑکوں میں زیادہ ہوتاہے۔ یہ اس قدر عام ہے کہ اوسطاً ایک کلاس میں دو سے تین بچے اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اگر ان کا نفسیاتی علاج نہ کرایا جائے تو عام بچوں کے مقابلے میں خدشہ ہوتا ہے کہ یہ تمباکو یا منشیات کے عادی ہو جائیں، خودکشی کا رجحان ان میں بڑھ جائے یا پھر تشدد آمیز رویہ اپنا لیں، تعلیمی اعتبار سے پیچھے رہ جائیں۔ شخصیت کی خرابیوں میں مبتلا ہو جائیں یا جرائم میں ملوث ہو جائیں۔اس عارضہ کی نمایاں ترین علامات کیا ہوتی ہیں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ بعض اوقات اس کی علامات بعض دیگر عوارض سے ملنے لگتی ہیں۔ یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی نہایت اہم علامات کو نظرانداز کرکے کسی اور عارضہ کی جانب توجہ مبذول ہو جاتی ہے۔ یہ غلطی اکثر ہوتی ہے۔ اس عارضہ کی شدت بھی مختلف ہوتی ہے۔ بعض اوقات محض معمولی عدم توجہگی کا برقرار رہنا ایک علامت ہوتی ہے اور کبھی کبھی بچہ بے حد چست (Over Active) ہو جاتا ہے۔ جس سے بہت بے چینی ہوتی ہے۔اس کیلئے ان کے سکول کے اساتذہ بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ کہ وہ بچوں کی نفسیات سے واقف ہوں اور تربیت یافتہ ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے گھر والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر بھرپور توجہ دیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 855
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں